syed Muhammad Abid
Gender : Posts : 16 Points : 54 Reputation : 0 Join date : 2011-04-02
| Subject: جدید ٹیکنولوجی اور سر سبز انقلاب Mon Jul 11, 2011 12:16 pm | |
| زراعت پاکستان کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، اس لئے زرعی شعبے کی ترقی ملک کی ترقی ہے۔ دنیا جدیدیت کی طرف سفر کر رہی ہے اور ہم اب تک زراعت کے روایتی طریقوں کو اپنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر کسان ابھی تک ہل چلانے کے لئے بیلوں کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک جدید ٹریکٹروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کی فصلوں کی پیداوار ایک حد تک بڑھنے کے بعد رک گئی ہے مگر افسوس اس بات پرہے اس بات پر کوئی خاص توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔
حکومتی سطح پر زبانی کلامی زراعت کی ترقی کی باتیں ہورہی ہیں مگر اس معاملے میں سنجیدگی کا فقدان ہے۔ ملک میں جدید ٹیکنولوجی استعمال کرنے کے مشورے دیئے جاتے ہیں لیکن ٹیکس بھی لگا دیا جاتا ہے۔ کسان پہلے ہی غریب ہیں مہنگی ٹیکنولوجی کیسے خریدینگے؟ ان حالات میں کسانوں سے زیادہ پیداوار کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ ہمیں کسانوں کی خوشی کا خیال رکھتے ہوئے کسانوں کو سستی ٹیکنولوجی مہیا کرنی چاہیئے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔
حکومت ٹیکنولوجی کی اہمیت سے واقف ہے مگر نامعلوم وجوہات کہ بنا پر جدید ٹیکنولوجی کے استعمال کو فروغ نہیں دیا جارہا ہے۔ جدید زرعی ٹیکنولوجی نہ صرف پیداوار میں اضافہ کر سکتی ہے بلکہ اس سے ملکی خوشحالی میں اضافہ اور پریشانیوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ ہمیں زراعت کی روایات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں روایتی زرعی انداز کو ترک کرنا ہوگا۔
کسانوں میں خواندگی کی شدید کمی ہے،جس کی وجہ سے وہ جدید ٹیکنو لو جی سے استفا دہ نہیں کرسکتے ہیں۔ جدید ٹیکنولوجی کے استعمال کے حوالے سے کسا نوں کی باضابطہ تربیت سے زرعی شعبے کو تر قی دی جا سکتی ہے۔ ہم گندم، گنے، چاول، کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار میں خاص مقام رکھتے ہیں، اس مقام کو برقرار رکھنے اور بیرونی زرعی منڈیوں کواپنے قابو میں کرنے کے لئے مزید پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے جو صرف جدید ٹیکنولوجی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ملک کے کل اسی ملین ہیکڑ ز رقبے میں سے صرف اکیس ملین ہیکڑ رقبہ قابل کاشت ہے، زرعی زمین کا ایک بڑا حصہ غیر زرعی مقاصد کے لئے استعمال ہو رہاہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ تقریباًپانچ سو ایکڑ زرعی زمین آبادیوں کی وسعت اور بہت سی دیگر غیر زرعی سرگرمیوں کے لئے استعمال میں لائی جارہی ہے۔
زیر زمین پانی کی سطح بلند ہونے، کھارے پانی کے بڑھنے، نیز ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں زمین کے کٹائو جیسے مسائل زرعی رقبے کو مزید کم کر رہے ہیں۔ اگر یہی مسائل برقراررہے تو ملکی زراعت کو شدید نقصان پہنچے گا۔
جدید ٹیکنولوجی نہ صرف کم رقبے میں زیادہ پیداوار دے سکتی ہے بلکہ ایسے علاقے جہاں کی زمین کاشتکاری کے قابل نہیں اس کو بھی کاشت کے قابل بناتی ہے۔ ہم جدید زرعی ٹیکنولوجی کو ملک میں فروغ دیتے ہوئے سر سبز انقلاب کا خواب ممکن کر سکتے ہیں۔
بدقسمتی سے جدید ٹیکنولوجی کی دستیابی کے باوجود ہمارے ہاں چھوٹا کاشتکار مختلف مشکلات کا شکار ہے جس کی وجہ سے ترقی پسند کاشتکار کے مقابلے میں پیداوار کا گندم میں فرق ترتالیس عشاریہ پانچ فیصد اور کپاس میں تیس عشاریہ آٹھ فیصد دیکھنے میں آتا ہے اس خلیج کو پورا کرنے کے لئے زرعی ٹیکنولوجی کی مدد لینی چاہئے۔
کھاداور پانی کا ضرورت سے زائد استعمال نہ صرف زیاں ہے بلکہ سے کے باعث پیداواری لاگت میں اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ جدید ٹیکنولوجی کے استعمال سے اپنی کاشتکاری لاگت اور پیداواریت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ آبپاشی کے جدید طریقے ڈرپ ایری گیشن سے پانی کے چھڑکائو جیسے روایتی طریقوں کی نسبت چالیس فیصدکم پانی استعمال ہوتا ہے۔ اس سسٹم کے تحت طویل دورانیے تک پانی کی کم مقدار کا استعمال فصلوں کی افزائش کے لئے نہایت فائدہ مند ہے۔ اس سسٹم میں پانی مناسب طریقے سے استعمال ہوتا ہے جس سے وہ اچھی طرح فصلوں کی جڑوں تک پہنچ جاتاہے اور اس طرح کم پانی کے استعمال کے ساتھ ساتھ زمین کا کٹائو بھی نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ فصلوں میں گھاس اور دیگر جڑی بوٹیوں کو پانی نہ ملنے سے ان کی نشوونما نہیں ہوتی۔ فصلوں کی بعض بیماریاں زیادہ مرطوب ہونے سے پھیلتی ہیں لیکن یہ نظام اس طرح کی بیماریوں کا معاون نہیں ہے۔ کسانوں کے لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ڈرپ ایری گیشن سسٹم لگانے پر لاگت بھی کم آتی ہے۔
گزشتہ پچیس سالوں میں دنیا کے بہت سے ممالک نے بائیوٹیکنولوجی، ایگروکیمیکلز کے استعمال اور بیجوں کی نئی اقسام کاشت کر کے فی ایکڑ زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے بارہ ترقی پذیر ممالک کے تقریباً گیارہ ملین چھوٹے کاشتکار بائیوٹیکنولوجی کا استعمال کر رہے ہیں اور اس ٹیکنولوجی سے پیداوار میں اضافہ کر رہے ہیں۔
1980ءسے اب تک پاکستانی زرعی شعبے میں جدید ٹیکنولوجی کی بدولت گندم کی پیداوار میں تین عشاریہ تین فیصد، چاول کی پیداوار میں تین، کپاس کی پیداوار میں تین جبکہ گنے کی پیداوار میں ایک عشاریہ فیصد اضافہ حاصل کرچکا ہے۔ جدید دور میں فصلوں کی کٹائی اور بیج بونے کے لئے تھریشر اور ہارویسٹر کا استعمال عام ہو رہا ہے، ہمارے ملک میں بھی ایسی تمام ٹیکنولوجی عام ہونی چاہیئے۔
پاکستان میں زرعی ترقی، ملکی خوشحالی اور خود اعتمادی کے لئے زرعی ٹیکنولوجی کو فروغ دینے کے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں انگنت سرکاری و نیم سرکاری ادارے اور تحقیقی مراکز زرعی ترقی کے لئے کام کر رہے ہیںجو کہ ملک میں زرعی ٹیکنولوجی کو فروغ دینے میںاہم کر دار ادا کر سکتے ہیں، بس ان کا فعال بنانے کی ضرورت ہے۔
تحریر: سید محمد عابد [You must be registered and logged in to see this link.] | |
|