ہماری زندگی میں کچھ چیزیںبہت خاص ہوتی ہیں اور ان کا متبادل بھی کوئی
نہیں ہوتا، دودھ بھی انہی چیزوں میںسے ایک ہے۔ ہم سب اپنی زندگی کے سفر کا
آغاز دودھ ہی سے کرتے ہیں۔ بچپنے سے لے کر بڑھاپے تک ہرانسان دودھ اور اس
سے تیار کردہ مصنوعات کا استعمال کرتا ہے۔ دودھ میں انسان کو توانائی فراہم
کرنے والے اجزاءمثلاًوٹامن اے ، بی اور دیگر پائے جاتے ہیں۔ ملکی جی ڈی پی
میں دودھ اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کا حصہ گیارہ فیصد ہے۔ اسی لئے دودھ
اور اس سے تیار کردہ مصنوعات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان دنیا میں دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پرشمار کیا جاتا ہے۔
پاکستان سے اوپر دودھ کی پیداوار والے ممالک میں بالترتیب ہندوستان، چین
اور امریکہ شامل ہیں۔ ملک میں مویشیوں کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ سے زائد
ہے جن سے سالانہ پنتالیس بلین لیٹرسے زائد دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔ پاکستان
میں دودھ کی زیادہ پیداوار دینے والی گائیں اور بھینسوں میں ساہیوال کی
گائیں اورنیلی راوی بھینسیں مشہور ہیں۔
پاکستان میں زیادہ تر بھینس کے دودھ کوترجیح دی جاتی ہے اور اس کی وجہ
بھینس کے دودھ کا گائے کے دودھ سے گاڑھا ہونا ہے۔ بھینس کے دودھ میں چکنائی
کا تناسب پانچ فی صد کے لگ بھگ ہوتا ہے جب کہ گائے کے دودھ میں یہ مقدار
ساڑھے تین فی صد ہے۔ طبی ماہرین گائے کے دودھ کو انسانی صحت کے لیے زیادہ
بہتر قراردیتے ہیں۔ چند ملکوں کے سوا دنیا بھر میں ڈیری کی ضروریات پوری
کرنے کے لیے گائے کا دودھ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
ملک میں استعمال کردہ دودھ میں سے ستانوے فیصد دودھ چھوٹے گھرانوں سے حاصل
کیا جاتا ہے جن کے پاس زیادہ سے زیادہ چھ سے آٹھ جانور ہیں، اسی وجہ سے یہ
دودھ جراثیم سے پاک کرنے کے لئے مختلف مراحل سے نہیں گزارا جاتا جو کہ
لوگوں کے لئے سخت نقصان دہ ہے۔ کچھ چھوٹی موٹی کمپنیاں ہیں جو دودھ کو
اکھٹا کر کے ان کو مختلف مراحل سے گزار کر ڈبوں میں پیک کرتی ہیں اور اور
بہت سی دودھ کی نئی اقسام کو پیش کرتی ہیں،ان میں پیسچرائزڈ۔یو ایچ ٹی،
کنڈنسڈ، پاﺅڈر اور بہت سی اقسام شامل ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں
ڈیری فارمز کی تعداد تقریباً تیس ہزار ہے۔
دودھ کو ایک خاص طریقہ کار کے ذریعے مختصر عرصے کے لیے ایک سو پنتالیس سے
ایک سو پچاس فورن ہیٹ درجہ حرارت پر رکھا جاتا ہے تاکہ جراثیم کو ختم کردیا
جائے اور پھر اسے ٹھنڈا کرکے بوتلوں میں بھرا جائے، اور اس کے بعد اسے
بازار میں لایا جائے۔ اس طریقہ کار کو پیسچرائزیشن کہا جاتا ہے۔
پیسچرائزیشن کے ذریعے دودھ کو ایکولائے اور بیکٹریا سے پھیلنے والی دیگر
بیماریوں سے پاک کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بائیس فیصد دودھ پیسچر ائزڈ کیا
جاتا ہے اور باقی گوالے فروخت کرتے ہیں۔ عام طور پر لوگ پیسچرآئزڈ دودھ کی
بجائے روایتی طریقوں سے گوالوں کے مہیا کردہ دودھ کا استعمال کرتے ہیں جو
کہ پیٹ اور جگر کی بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔ گوالے دودھ کی مقدار کو زیادہ
کرنے کے لئے دودھ میںپانی یا کیمیکل ملاتے ہیں جس سے دودھ آلودہ ہوجاتا ہے
اور اس کی غذائیت میں بھی کمی آجاتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ لوگ گوالوں
کی اصلیت سے واقف ہیں مگر پھر بھی وہ یہی جراثیم زدہ اور غیر پیسچر آئزڈ
دودھ استعمال کرتے ہیں۔
گوالوں کا مہیا کردہ دودھ استعمال کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پیسچرائزیشن کا
عمل جراثیم کے ساتھ ساتھ دودھ میں سے مفید اجزاءکو بھی ختم کردیتا ہے
اسلئے وہ خالص دودھ کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
اکثر لوگ دودھ کو ابال کرپینے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ دودھ میں موجود
انسانی صحت کو نقصان پہنچانے والے جراثیم مرجائیں جبکہ ایسا کرنے سے جراثیم
کے ساتھ ساتھ دودھ کے فائدے مند اجزاءبھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس کی نسبت
پیسچرائزیشن کے طریقے سے دودھ کی غذائیت بھی اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور
جراثیم کو بھی مار دیا جاتا ہے۔ پیسچرائزیشن کے ذریعے دودھ کو ٹھنڈا کر کے
ڈبوں اور بوتلوں میں مشینوں کے ذریعے بھر دیا جاتا ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ٹیٹرا پیک یا ڈبے میں بند یو ایچ ٹی
ٹریٹد دودھ کو بھی صحت کے لئے نقصان دہ کہا ہے۔ امریکی سائنسدانوں کے مطابق
ٹیٹرا پیک یا ڈبے میں بند دودھ اور ہر طرح کی خوراک صحت کے لئے مضر ہے۔
ڈبوں میں بند خوراک میں بی پی اے یا بیسفنول اے نامی کیمیکل کی بڑی مقدار
موجود ہوتی ہے جو صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بی پی اے یا بیسفنول اے نامی
یہ کیمیکل کینز اورڈبوں میں لگی حفاطتی کوٹنگ میں استعمال ہوتا ہے۔ اس بات
سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ٹیٹرا پیک پیکنگ بھی ہمارے لئے کوئی خاص مفید
نہیں ہے۔
پاکستان میں متعدد کمپنیاں ٹیٹراپیک یا ڈبوں میں بند فروخت کئے جانے والے
دودھ کو صحت بخش دودھ کہہ کر فروخت کر رہی ہیں جو کہ غلط ہے۔ اس کی نسبت
پیسچر ائزڈ یعنی بوتلوں میں فروخت کیا جانے والے دودھ میں غذائیت زیادہ
ہوتی ہے۔ عام طور پر لوگ پیسچرائزیشن دودھ کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اسی
لئے وہ ڈبوں اور گوالوں کا دودھ استعمال کرتے ہیں جو کہ انسانی جان کے
نقصان کا باعث بنتا ہے۔
تحریر: سید محمد عابد
[You must be registered and logged in to see this link.]